اسلام علیکم
 دوستو اب وقت آگیا ہے کہ فیس بک کو
کو بند کر دیں اور پاکستان کا سوشیل میڈیا اسلامک سوشیل میڈیا جوائن کریں اس میں یہ صرف مسلمانوں کا سوشیل میڈیا ہے جس کی آپ کو ضرورت ہے اور اس پر کیسی کی جرات نھیں کہ وہ اسلام کے خلاف کوئی بات کرے اس کا سب سے زیادہ فائدا ھم پاکستانی عوام کو ہے اورسب سے بڑی بات ہے ہے کہ یہاں آپ کو اپنا  ٹائم لگانے کے پیسے ملتے ہیں مطلب اگر آپ کو کوئی پوسٹ اچھی لگتی ہے اور آپ اس کو لائک کرتے ہیں تو سوشیوآن
اس کے بدلے اپکوپیسے دیتا ھے تو جلدی سے جلد سوشیوآن جوائن کریں اور اس سے فائدا حاصل کریں

سوشیوآن ریچارج اکاؤنٹ کیسے کریں

اسلام علیکم
سوشیوآن کے دوستو سوشیوآن پر کمانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے اپنا اکاؤنٹ ریچارج کرایا ہو ریچارج کرنے کا طریقہ میں آپ کو بتا رہا ہوں وشیوآن کے والٹ میں جائیں  پرچیز بکٹ میں  ریچارج  پر کلک کریں
اور 
پھر اپنا کنٹری سلکٹ کریں 

پھر اپنا ریچارج متھڈ مطلب جاز کیش یا ایزی پیسہ
پھر 
پھر ان میں سے کسی بھی نمبر پر 
آپ پیسہ بھیج کر اس کی ٹرانزیکشن آئی ڈی 
یہاں لیکھیں بھیجی گئی رقم لیکھیں اپنا 
نمبر جیس سے پیسے بھیجے
ہوں وہ لیکھیں پھر اپنا ای میل اڈریس 
لیکھیں پھر ڈن کر دیں 
کچھ گھنٹوں میں آپ کا اکاؤنٹ ویرفائڈ ہو جاے گا 

سوشیوآن پر اپنا اکاونٹ کیسے بنائیں ویڈیو

اسلام و علیکم سب سے پھلے آپ اس
لنک پر کلک کریں گے جوائن کریں یہاں سے
اور تصویر کے حصاب سے سٹینگ کریں

سب سے پہلے اپنا اصل شناختی کارڈ والا نام لکھیںں

پھر اپنا ورکنگ جی میل آئی ڈی لگائیں
پھر اپنا پاسورڈ بنائیں
پھر سہی ڈیٹ آف برتھ
پھر میل فی میل سلکٹ کریں
پھر آپ سائن اپ پر کلک کریں
اس کے بعد
یے پیج سامنے آئے گا

اس میں کنٹری سلکٹ کریں
اپنا موبائل نیٹ ورک سلکٹ کریں
اور پھر اپنا نمبر لیکھیں
اور نکسٹ کر دیں
پھر اس پیج پر
اس پیج میں جو ویرفکیشن کوڈ آپ کو 
سوشیوآن کی طرف سے آپ کے نمبر پر ملا 
ھوگا وہ لیکھکر نیکسٹ کر دیں 
اب آپ اپنے جی میل میں جا کے 
سوشیوآن کا میل چیک کریں اس میں
ویری فیکیشن لنک میلے گا اس پر کلک کریں 
آپ کا اکاؤنٹ تیار ہے اگر کوئی مسلہ پوچھنا ھو تو میرا واٹس ایپ نمبر پر مسج کریں 
03016034493

SocioOn se paisy kaisy kama sakty hain





اسلام علیکم دوستو سوشیوآن ایک پاکستانی سوشل میڈیا ھے جس پر آپ لایک شیر کمنٹ کر کے پیسے کما سکتے ہیں
اس میں بہت سارے اوپشن ہیں پیسے کمانے کے 
آپ لوگ فیس بک پر جو ٹایم لگاتے ہیں 
وہ ٹایم سوشیوآن پر دے کر ایک اچھی رقم کما سکتے ہیں 
اور کام بھی کچھ نھں بس لایک شیر کمنٹ کر کے 
اس سے پیسے آپ اپنے جاز کیش ایزی ہیسا یوپیسہ میں لے سکتے ہیں یہ ایک کافی پرانی ساۃٹ ہے میں خود 2سال سے کام کر رہا ہوں  

یہ ٹاپ پے آوٹ میں 
The newas of jalalpurpirwala id meri hai 
 اس ساۃٹ پر آپ جتنا ٹاۃم کام کرو گے اتنا پیسا اس کو جیتنا ھو سکے شیر کریں یے ایک اسلامک میڈیا
ہے اس پر کویی غلط ڈٹا شیر نھیں کر سکتا
میری ایک دن کی ارنگ

Ek hikayat ek sabaq


ایک ادمی

ایک بدو رسول اللہ ﷺ کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ :" یارسول اللہ ﷺ میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں...? "اور اجازت ملنے پر بدو نے عرض کی :" یارسول اللہ ﷺ میں امیر )غنی( بننا چاہتا ہوں...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" قناعت اختیار کرو، امیر ہوجاؤ گے ...! "عرض کی :" میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتاہوں...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" تقویٰ اختیار کرو عالم بن جاؤ گے ...! "عرض کی :" عزت والا بننا چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانا بند کردو ،باعزت ہوجاؤ گے ...! "عرض کی :" اچھا آدمی بننا چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" لوگوں کو نفع پہنچاؤ ...! "عرض کی :" عادل بننا چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" جسے اپنے لیے اچھے سمجھتے ہو وہی دوسروں کے لیے پسند کرو ...! "عرض کی :" طاقتور بننا چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" اللہ تعالیٰ پر توکل کرو ...! "عرض کی :" اللہ تعالیٰ کے دربار میں خاص خصوصیت کا درجہ چاہتا ہوں ... ? "آپ ﷺ نے فرمایا :" کثرت سے ذکر کرو ...! "عرض کی :" رزق کی کشادگی چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" ہمیشہ باوضو رہو ...! "عرض کی :" دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" حرام نہ کھاؤ ...! "عرض کی :" ایمان کی تکمیل چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" اچھے اخلاق پیدا کرلو ...! "عرض کی :" قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے گناہوں سے پاک ہو کر ملنا چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :"جنابت کے بعد فوراََ غسل کیا کرو ...! "عرض کی :" گناہوں میں کمی چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" کثرت سے استغفار کیا کرو ...! "عرض کی :" قیامت کے دن نور میں اٹھنا چاہتا ہوں...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" ظلم کرنا چھوڑ دو ...! "عرض کی :" چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم کرئے...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" اللہ تعالیٰ کے بندوں پر رحم کرو ...! "عرض کی :" چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ میری پردہ پوشی فرمائیں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" لوگوں کی پردہ پوشی کرو ...! "عرض کی :" چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا محبوب بن جاؤں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا محبوب ہو۔ اسے اپنا محبوب بنالو ...! "عرض کی :" رسوائی سے بچنا چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" زنا سے بچو ...! "عرض کی :" اللہ تعالیٰ کا فرما نبردار بننا چاہتا ہوں...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" فرائض کا اہتمام کرو ...! "عرض کی :" احسان کرنے والا بننا چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" اللہ تعالیٰ کی ایسی بندگی کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو یا جیسے وہ تمھیں دیکھ رہا ہے ...! "عرض کی :" یارسول اللہ ﷺ کیا چیز گناہوں کی معافی دلاےگی ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" آنسو ، عاجزی ، بیماری ...! "عرض کی :" کیا چیز دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کرے گی ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" دنیا کی مصیبتوں پر صبر ...! "عرض کی :" اللہ تعالیٰ کے غصے کو کیا چیز سرد کرتی ہے ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" چپکے چپکے صدقہ اور صلح رحمی ...! "عرض کی :" سب سے بڑی برائی کیا ہے ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" بداخلاقی اور بخل ...! "عرض کی :" سب سے بڑی اچھائی کیا ہے ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" اچھے اخلاق، تواضع اور صبر ...! "عرض کی :" اللہ تعالیٰ کے غصے سے بچنا چاہتا ہوں ...? "آپ ﷺ نے فرمایا :" لوگوں پر غصہ کرنا چھوڑ دو ...! "اللہ تعالٰی مجھ گناہ گار سمیت ہم تمام مسلمانان عالم کو میرے پیارے آقا جناب حضرت محمّد مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے تمام مندرجہ بالا ارشادات پر ٹھیک ٹھیک اور مکمل عمل کرنے کی سعادت نصیب فرماتے ہوئے عین صراط مستقیم پر چلنے کی کامل توفیق عطا فرمائے ...آمیـــــــــــــــــن ثم آمیـــــــــــــــــن یارب 

ایماندار چرواھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت عمر فاروق ؓ کے فرزندحضرت عبداللہ ؓ بھی رسول اکرمﷺ کے پیارے ساتھی)صحابی (تھے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ اپنے چندساتھیوں کے ہمراہ مدینہ سے باہرتشریف لے گئے۔ایکجگہ ان کے ساتھیوں نے کھانے کے لئے دسترخوان بچھایا۔قریب ہی ایک چرواہا بکریاں چرارہاتھا۔حضرت عبدا للہ بن عمرؓ نے اس سےکہا:”آﺅ بھائی چرواہے،اس دسترخوان سے تم بھی کچھ کھا پی لو۔“چرواہے نے کہا :”میرا روزہ ہے۔“حضرت عبدا للہ بن عمر ؓنے فرمایا:”اس سخت گرم دن میں تم روزے کی مصیبت برداشت کر رہے ہو جبکہ سخت گرم لو بھی چل رہی اور پھر ان تپتے ہوئے پہاڑوں میں تم بکریاں بھی چرا رہے ہو۔“چرواہے نے کہا:”جی ہاں،میں اس وقت کی تیاری کر رہا ہوں جب عمل کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔“)یعنی مرنے کے بعد کا وقت(اس لئے اس دنیا کی زندگی میں عمل کر رہا ہوں۔)یعنی روزہ رکھ کر حلال روزی کے لئے محنت کر رہا ہوں۔(حضرت عبداللہ ؓ نے چرواہے کی پر ہیز گاری اور اللہ کے خوف کا امتحان لینے کے لئے اس سے کہا:”کیا تم اس ریوڑ میں سے ایکبکری بیچ سکتے ہو،ہم تمہیں اس کی نقد قیمت دیںگے اور روزہ افطار کرنے کے لئے تمہیں گوشت بھی دیں گے۔“چرواہے نے جواب دیا:”یہ بکریاں میری تو نہیں کہ ان میں سے کوئی بکری بیچ دوں۔یہ میرے آقا کی ہیں،وہی ان بکریوں کا مالک ہے۔اس کی اجازت کے بغیر میں کوئی بکری بیچ نہیں سکتا۔“حضرت عبداللہؓ نے کہا:”تمہارا آقا اگر ریوڑ میں کوئی بکری کم پائے گا اورتم اس سے کہہ دو کہ گم ہوگئی ہے تو تمہیں کچھ نہیں کہے گاکیونکہ ریوڑ سے ایک دو بکریاں گم ہوتی رہتی ہیں۔“حضرت عبداللہ کی بات سن کر چرواہا ان کے پاس سے چل دیا۔وہ اپنی انگلی آسمان کیطرف اٹھا کر بار بار یہ الفاظ دہرائے جا رہا تھا کہ این اللہ؟این اللہ؟اللہ کہاں ہے؟اللہ کہاں ہے؟مطلب یہ کہ کیا اللہ سب کچھ نہیں دیکھ رہا۔یہ چرواہا ایک شخص کا غلامتھا۔اسکی ایمانداری اور اس کا خوف ِخدا دیکھ کر حضرت عبدا للہ بن عمر ؓ بہت خوشہوئے اور اپنے آدمی اس چرواہے کے آقا کے پاس بھیج کر اس سے تمام بکریاں اور چرواہے کو خرید کر اسے آزاد کردیا اور پھر تمام بکریاں بھی اسی کو دے دیں۔)اسے ان بکریوں کا ما لک بنا دیا

Gusal Sahih Kya Karen


دادا جی نے ایک دفعہ بتایا کہ ان کے )یا شاید کسی اور اللہ والے کے( پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ حضرت بہت عرصہ سے میرے سر میں درد کی شکایت ہے۔ ہر قسم کے ٹیسٹ کروا چکا ہوں سب کچھ کلیئر آتا ہے۔ بہت علاج کروایا لیکن کوئ فرق نہیں پڑرہا۔ دادا جی نے اس کے لیے دعا بھی کی اورسر پر لگانے کے لیے تیل بھی دم بھی کیا لیکن کچھ دن بعد وہ پھر اسی مسئلے کے ساتھ دوبارہ آگیا۔ دادا جی کو بہت حیرانی ہوئی کہ کیا وجہ سے کہ کچھ بھی فرق نہیں پڑا۔ داد ا جی نے اس سے چند سوال کیے تو پتہ چلا کہ اسے غسل کا طریقہ ہی نہیں آتا۔ وہ بے چارہ جس طرح غسل کرتا رہا وہ غلط طریقہتھا۔ دادا جی نے اسے غسل کا درست طریقہ سمجھایا اور کہا کہ اللہ سے معافی مانگ کر صحیح طریقے پر غسل کرو۔ جب اس نے ایسا کیا تو اگلے ہی دن سر کا درد ختم ہوگیا۔یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہم پر آنے والی ہر تکلیف، مصیبت یا پریشانی اللہ کی طرف سے ہمارے لیے آزمائش ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہماراکوئی گناہ، نافرمانی یا لاعلمی میں کیا گیا کوئی ایساکام جس سے اللہ پاک ناراض ہوتے ہوں ہم پر مصیبت آنے کا باعث بنتا ہے اس لیے جب بھی ہم پر کچھ سخت حالات آئیں تو ہم اچھی طرح اپنے اعمال کا جائزہ لیں کہ کہیں کوئی ایسی بات تو نہیں ہورہی جو اللہ کو ناراض کرنے کا باعث بن رہی ہو اگر پتہ چل جائے تو توبہ کریں، پتہ نہ چلے تو اللہ سے دعا کریں کہ یا اللہ میرے جس گناہ کی وجہ سے آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہیں میرے اس گناہ کو معاف فرما دیں اور مجھے اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ پھر بھی مصیبت باقی رہی تو اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھتے ہوئے صبر شکر کے ساتھ برداشت کریں اور اللہ سے عافیت طلب کرتے رہیں کیونکہ اللہ پاک کسی پر بھی اس کی برداشت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتے۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسا عمل جسے ہم معمولی سمجھتے ہوئے کررہے ہوتے ہیں درحقیقت وہی ہماری پکڑکا باعث بن جاتا ہے یا لاعلمی میں کی جانے والی کوئی غلطی ہمارے لیے پریشانی لے آتی ہے۔ اس لیے کسی بھی مصیبت کے آنے پر اپنی قسمت کوکوسنے اور شکوہ کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا چاہیے کیونکہ اکثر مصیبتیں ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائ ہوتی ہیں

پانچ ہزار فرشتے میدانِ جنگ میں

پانچ ہزار فرشتے میدانِ جنگ میں


جنگ بدر کفر و اسلام کا مشہور ترین معرکہ ہے۔ ۱۷ رمضان ۲ ؁ھ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ''بدر'' میں یہ جنگ ہوئی۔ اس لڑائی میں تعداد اور اسلحہ کے لحاظ سے مسلمان بہت ہی کمتر اور پست حالی میں تھے۔ مسلمانوں میں بوڑھے، جوان اور بچے اور انصار و مہاجرین کل مل کر تین سو تیرہ مجاہدین اسلام علم نبوی کے زیرِ سایہ کفار کے ایک عظیم لشکر سے نبرد آزما تھے۔ سامانِ جنگ کی قلت کا یہ عالم تھا کہ پوری اسلامی فوج میں چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں تھیں۔ اور کفار کا لشکر تقریباً ایک ہزار نہایت ہی جنگجو اور بہادروں پر مشتمل تھا اور ان بہادروں کے ساتھ ایک سو بہترین گھوڑے، سات سو اونٹ اور قسم قسم کے مہلک ہتھیار تھے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی گھبراہٹ اور بے چینی ایک قدرتی بات تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگ کر خدا عزوجل سے لو لگائے مصروف دعاتھے کہ الٰہی ! اگر یہ چند نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے نہ رہیں گے
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، مناشدۃ الرسول ربہ النصر،ج۱، ص ۵۵۴ ،ملخصاً)
دعا مانگتے ہوئے آپ کی چادر مبارک دوشِ انور سے زمین پر گر پڑی اور آپ پر رقت طاری ہو گئی۔ یہاں تک کہ آنسو جاری ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے یار غار تھے۔ آپ کو اس طرح بے قرار دیکھ کر اُن کے دل کا سکون و قرار جاتا رہا۔ انہوں نے چادر مبارک کو اٹھا کر آپ کے مقدس کندھے پر ڈال دیا اور آپ کا دست مبارک تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضور اب بس کیجئے۔ اللہ تعالیٰ ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اپنے یار غار صدیق جاں نثار(رضی اللہ عنہ )کی گزارش مان کر آپ نے دعا ختم کردی اور نہایت اطمینان کے ساتھ پیغمبرانہ لہجے میں یہ فرمایا کہ:۔
سَیُہۡزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ﴿
45
ترجمہ کنزالایمان:۔اب بھگائی جاتی ہے یہ جماعت اور پیٹھیں پھیر دیں گے۔ 
(پ27،القمر45)
صبح کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آیاتِ جہاد کی تلاوت فرما کر ایسا ولولہ انگیز وعظ فرمایا کہ مجاہدین کی رگوں میں خون کا قطرہ قطرہ جوش و خروش کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی کہ اگر صبر کے ساتھ تم مجاہدین میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کے لئے آسمان سے فرشتوں کی فوج بھیج دے گا۔
چنانچہ پانچ ہزار فرشتوں کی فوج میدانِ جنگ میں اتر پڑی اور دم زدن میں میدانِ جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجرین کا جھنڈا لہرا رہے تھے اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصار کے علمبردار تھے۔ کفار کے ستر آدمی قتل ہو گئے۔ اور ستر گرفتار ہوئے باقی اپنا سارا سامان چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ کفار کے مقتولین میں قریش کے بڑے بڑے نامور سردار جو بہادری اور سپہ گری میں یکتائے روزگار تھے۔ ایک ایک کر کے سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ یہاں تک کہ کفار قریش کی لشکری طاقت ہی فنا ہو گئی۔ مسلمانوں میں کل چودہ خوش نصیبوں کو شہادت کا شرف ملا جن میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے اور مسلمانوں کو بے شمار مالِ غنیمت ملا جو کفار چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر اور فرشتوں کی فوج کا تذکرہ قرآن مجید میں ان لفظوں کے ساتھ فرمایا کہ:۔ وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنۡتُمْ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ ﴿123﴾اِذْ تَقُوۡلُ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ اَلَنۡ یَّکْفِیَکُمْ اَنۡ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمۡ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُنۡزَلِیۡنَ ﴿124﴾ؕبَلٰۤی ۙ اِنۡ تَصْبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا وَیَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوْرِہِمْ ہٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمۡ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیۡنَ ﴿125﴾وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰی لَکُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوۡبُکُمۡ بِہٖ ؕ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنۡدِ اللہِ الْعَزِیۡزِ الْحَکِیۡمِ ﴿126
ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سروسامان تھے۔ تو اللہ سے ڈروکہ کہیں تم شکر گزار ہو جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتے اتار کر ہاں کیوں نہیں اگر تم صبر و تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا اور یہ فتح اللہ نے نہ کی مگر تمہاری خوشی کے لئے اور اسی لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو چین ملے اور مدد نہیں مگر اللہ غالب حکمت والے کے پاس سے۔ 

(پ4،آل عمران:123تا126)
درس ہدایت:۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد اور سامانِ جنگ کی قلت کے باوجود فتح مبین نے مسلمانوں کے قدموں کا بوسہ لیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فتح کثرتِ تعداد اور سامانِ جنگ کی فراوانی پر موقوف نہیں۔ بلکہ فتح کا دارومدار نصرتِ خداوندی پر ہے کہ وہ جب چاہتا ہے تو فرشتوں کی فوج آسمان سے میدانِ جنگ میں اتار کر مسلمانوں کی امداد و نصرت فرما دیتا ہے اور مسلمان قلتِ تعداد اور سامانِ جنگ نہ ہونے کے باوجود فتح مند ہو کر کفار کے لشکروں کو تہس نہس کر کے فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے دو شرطیں رکھی ہیں، ایک صبر اور دوسرا تقویٰ۔ اگر مسلمان صبر و تقویٰ کے دامن کو تھامے ہوئے خدا کی مدد پر بھروسہ کر کے جنگ میں اَڑ جائیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر محاذ پر فتح مبین مسلمانوں کے قدم چومے گی اور کفار شکست کھا کر راہ فرار اختیار کریں گے یا مسلمانوں کی مار سے فنا ہو کر فی النار ہوجائیں گے۔ بس ضرورت ہے کہ مسلمان صبر و تقویٰ کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر خدا کی مدد کا بھروسہ کر کے کفار کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدانِ جنگ میں استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہیں اور ہرگز ہرگز تعداد کی کمی اور سامانِ جنگ کی قلت و کثرت کی پرواہ نہ کریں کیونکہ فرمانِ خداوندی ہے کہ
وَمَا النَّصْرُ اِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللہِ کہ مدد فرمانے والا تو بس اللہ ہی ہے۔
سچ کہا ہے کہنے والے نے ؎

کافر ہو تو تلوار پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

(عجائب القرآن مع غرائب القرآن صفحہ 85-82)

khana kaaba ki tareekh


Ghazwaa-e-Uhad


قصہ ایک طالب علم کا۔۔۔۔



تحریر:حافظ ابو یحییٰ نور پوری
پیارے بچو ! سفر تو آپ بھی کرتے رہتے ہیں ، لیکن میں آج آپ کو ایک عجیب و غریب سفر کی داستان سنانا چاہتا ہوں، امید ہے کہ جہاں یہ واقعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا سبب بنے گا ، وہاں نہایت سبق آموز بھی ہوگا۔
صدیوں پرانی بات ہے ، سخت گرمی کاموسم تھا، تین طالبِ علم قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اپنے علاقے کو خیرباد کہتے ہوئے سمندر پار جانے کے لئے روانہ ہوئے ، وہ اس بات پرخوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ تین مہینوں کا راشن ساتھ لے کر جارہے ہیں اور اب تو کئی ماہ مسلسل علم حاصل کرکے وہ اپنی علمی پیاس کو قدرے بھجا سکیں گے، لیکن:
ہوتا ہے وہی جو منظورِ خدا ہوتا ہے
اس دور میں انجنوں کی مدد سے چلنے والے بحری جہاز تو ہوتے نہیں تھے، عام طور پر چھوٹی چھوٹی کشتیاں ہوتیں جو ہوا کے رحم و کرم پر چلتی تھیں۔ اگر قدرتی طور پر ہوا منزلِ مقصود کی طرف چل رہی ہوتی تو مسافروں کی “پانچوں گھی میں” ہوجاتیں، لیکن خدانخواستہ اگر ہوا مخالف سمت اختیار کرلیتی تو بسا اوقات کئی کئی ماہ مسافر سمندر میں ہی بھٹکتے رہتے اور کھانے پینے کا سامان ختم ہونے یا راستہ بھول جانے کی وجہ سے آخر کار زندگی سےمایوس ہوجاتے ۔ یوں سمندری لہروں کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
ان طلبہ کے ساتھ بھی ایسے ہی حالات پیش آئے ۔ ان کی کشتی بھی مخالف ہوا کی بھینٹ چڑھ گئی، لاکھ جتن کیے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پورے تین ماہ یہ ہوائی طوفان کشتی کو سمندر میں گھماتا پھراتا رہا، چند لقموں کے سوا سارا سامان خوردونوش کام آچکا تھا۔ ان بے چاروں کے پاس دعاؤں اور التجاؤں کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑانا شروع کردیا۔ ایک تو وہ تھے مسافر، دوسرے سفربھی طلبِ علم کا تھا۔ ایسے مسافروں کے پاؤں میں تو فرشتوں جیسی مقدس مخلوق بھی اپنے نورانی پَر بچھانا فخر سمجھتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ جو “ارحم الراحمین”ہے ، اس کی رحمت جوش میں کیوں نہ آجاتی؟ دعا قبول ہوئی اور کشتی کنارے جالگی، لیکن:
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا !
اصل مصیبت کا آغاز اب ہوا۔ مشیئتِ الہٰی کو ان کی آزمائش مقصود تھی اور وہ بھی اپنی دھن کے ایسے پکے تھے کہ مصائب سے گھبرا کر علم کی راہ سے ہٹ جانا ان کے لئے مشکل ہی نہیں ، ناممکن تھا۔ اس لیے بے سرو سامانی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے انجام سے بے خبر منزل کی جانب بڑھنے لگے۔ بھوک لگی تو بچے کچے چندلقمے جو پاس تھے ،وہ بھی نگل گئے۔
اب نہ کھانے کو کچھ تھا نہ پینے کو ، سورج کی گرم لو اور صحرا کی تپتی ریت جہنم کا سا سماں پیدا کررہی تھی ۔ سارا دن چلتے چلتے گزر گیا۔ دور دراز تک کسی چرند پرند کا نام و نشان تک نہ تھا، سوائے موت کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا ،لیکن کھانے کی قلت اور پیاس کی شدت ان کے پایۂ استقلال میں لرزش پیدا نہ کر پائی ۔ رات ہوئی تو ایک جگہ سوگئے ۔ اگلے دن پھر منزل کی طرف رواں دواں رہے ۔ اب تو زبانیں خشک ہوچکی تھیں اور قدم ڈگمگانے لگے تھے، پھر سارا دن یونہی گزرا۔ رات ہوئی تو ایک جگہ گر گئے۔
کئی دنوں کی مسلسل بھوک اور پیاس نے ان کو کسی کام کا نہ چھوڑا تھا۔ تیسرا دن تو گویا ان کے لئے قیامت ثابت ہوا۔ ان کی حالت اتنی دگرگوں ہوگئی کہ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک طالب علم بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔ ذرا اندازہ کریں کہ بھوک پیاس نے اگر باقی دو ساتھیوں کے پلے کچھ چھوڑا ہوتا وہ اسے سنبھالتے ۔ ان کو تو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔اس دھچکے کے بعد وہ اپنی موت کو اور قریب سے دیکھنے لگے تھے ۔ اسے وہیں چھوڑ کر دونوں پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، تھوڑی دور گئے تھے کہ دوسرا بھی گرمی اور پیاس کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین بوس ہوگیا۔ اس اکیلے ساتھی کی مصیبت کا ذرا تصور کیجئے جو اپنے دونوں دوستوں کو گرمی اور پیاس سے تڑپ کر گرتا ہوا دیکھ تو سکتا تھا ، کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد اسکے اپنے حواس بھی جواب دینے لگے تھے ، لیکن پھر بھی ہمت کرکے اِدھر اُدھر پانی کی تلاش میں دوڑنے لگا۔
پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے سنتِ الہٰی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ اپنے دین کے طالبوں اور خادموں کو آزماتا ضرور ہے ، لیکن کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا ۔ ان کو جھنجھوڑتا ضرور ہے ، لیکن کبھی ناکامی و نامرادی کا منہ نہیں دکھاتا ۔ اس کا وعدہ جو ہے : ﴿وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ﴾ (الحج:۴۰)
“جو اللہ کے دین کے خادم ہوتے ہیں ، اللہ ان کی ضرور ضرور مدد فرماتا ہے ۔”
﴿وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْن﴾ (الروم:۴۷) “ہم پر مومنون کی مدد لازم ہے ۔”
دین کے ان جاں نثار طالب علموں کے مومن ہونے میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے ؟ نیز آنے والے دنوں میں اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے دین کا بہت بڑا کا م لینا تھا ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی مدد آپہنچی۔ اپنے دو ساتھیوں کی زندگی بچانے کے لئے نکلنے والا اکیلا طالبِ علم اچانک ایک قافلے کو دیکھتا ہے ۔ اسے زندگی کی ہلکی سی کرن محسوس ہوئی ، چنانچہ اپنا کپڑا ہلا کر ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگا۔ قافلے والوں نے اسے دیکھا تو ٹھہر گئے ۔ گرمی اور پیاس اس پربھی اپنا کام کر چکی تھی ، قریب تھا کہ یہ بھی گرجاتا۔ انہوں نے اسے پانی پلایا ۔ جب جان میں جان آئی تو ان کو لے کر اپنے ساتھیوں کی طرف دوڑا ۔ پہلے ایک تک پہنچے اور اسے پانی کے چھینٹے مارے، کچھ ہوش و حواس بحال ہوئے تو تھوڑا تھوڑا کرکے پانی پلایا ، پھر دوسرے کے پاس دوڑے دوڑے گئے اور اسے بھی پانی پلا کر ہوش میں لائے ، پھر قافلے نے ان پر ترس کھایا اور کچھ سامانِ خوردونوش ان کو مہیا کیا۔
اسی سفر میں ان کو بھوک کی وجہ سے ایک مردہ جانور کے انڈے پی کر بھی اپنی جان بچانا پڑی تھی۔
لیکن بھوک پیاس اور گرمی کی اتنی صعوبتیں اٹھانے کے بعد کیا وہ اپنے مشن سے دستبردار ہوگئے تھے ؟ ہرگز نہیں ! علم کی راہ میں ملنے والے مصائب و آلام ان کو اس راہ سے ایک قدم بھی دور نہ کرسکے ، بلکہ ان کے شوق میں اور اضافے کا سبب بن گئے ، چنانچہ وہ ایک بار پھر نئے ولولے سے طلبِ علم کے لئے روانہ ہوگئے ۔ (تقرمۃ الجرح و التعدیل: ۳۶۴،۳۶۵،۳۶۶ ، وسندہ صحیح)
یہ (۲۱۴) ہجری کا واقعہ ہے ، یعنی اسے رونما ہوئے قریباً بارہ سو برس بیت چکے ہیں، لیکن آج بھی دین کے ان شیدائی طلباء کے یہ کارنامے کتابی صورت میں اہل علم کے سامنے ہیں اور قیامت تک وہ انہیں اپنے لیے مشعلِ راہ بناتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ
ان طلبہ میں سے ایک کو “امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، جو اپنے دور کے بہت بڑے محدث ہوئے اور علم حدیث میں ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ بعد میں آنے والے ان کو فراموش کرکے حدیث کے میدان میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔
آپ امام بخاری اور امام ابوزرعہ الرازی کے ہم عصر، امام احمد بن حنبل کے شاگرد اور امام ابوداود، امام نسائی ، امام ابن ماجہ اور دیگر بڑے بڑے محدثین کے استاذ تھے ۔تمام ائمہ کرام نے بالاتفاق ان کی تعریف و توثیق کی ہے ۔
آپ کی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ یہ بھی ہے کہ دورانِ سفر زادِراہ ختم ہونے پر مزید علم دین حاصل کرنے کے لئے اپنے کپڑ بیچ کر بھی گزار ہ کیا تھا ۔ (تقرمۃ الجرح و التعدیل : ۳۶۳، سندہ صحیح)
ہے کوئی طالبِ علم جو دنیا اور آخرت کی سعادتوں کو حاصل کرنے کے لئے آج بھی اپنے اسلاف کی روایات کو زندہ کرتے ہوئے طلبِ علم کی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنا یہ وعدہ پور اکرے :
﴿وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت : ۶۹)
“اور جو لوگ ہمارے (دین کے راستے) میں محنت کرتے ہیں، ہم ضرور ضرور ان کو اپنے (کامیابی و کامرانی والے) راستے دکھاتے ہیں۔”

عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک مجلس ہے، جلیل القدر صحابہ کرام مثلاَ ابوبکر، عمر، ابو ہریرہ اور انس بن مالک وغیرھم رضی اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد ہالہ بنائے تشریف فرما ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے صحابہ سے دریافت فرماتے ہیں: “وہ کون سا درخت ہے جس کے (سارے) پتے (خزاں میں بھی) نہیں گرتے؟” مسلمان کی مثال اس درخت جیسی ہے۔

اولیاء الرحمٰن کی اس مقدس محفل میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ صرف ایک لڑکا ایسا ہے جس کے دل میں خیال گزرتا ہے کہ یہ کھجور کا درخت ہے مگر وہ اپنی کم سنی کی وجہ سے اور بڑوں کا ادب کرتے ہوئے حیا کے سبب خاموش رہتا ہے۔ آخرکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانباز ساتھی آپ سے پوچھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بتادیں کہ یہ کون سا درخت ہے؟ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان سے موتی بکھرتے ہیں:” یہ “کھجور کا درخت ہے۔

بعد میں یہ ہونہار لڑکا اپنے عظیم المرتبت والد کو ساری بات بتا دیتا ہے۔ اسکا مجاہد باپ فرماتا ہے: اگر تو یہ کہہ دیتا کہ یہ کھجور کا درخت ہے تو مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ محبوب ہوتا صحیح بخاری: 6144، صحیح مسلم 2811

یہ عظیم الشان لڑکا تاریخ اسلام میں سیدنا عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کی کنیت ابو عبدالرحمٰن ہے۔ آپ کی سخاوت ظرب المثل تھی۔

ایک دفعہ آپ نے کہا: میرا دل آج مچھلی کھانے کا ہے۔ آپ کے گھر والوں نے مچھلی پکا کر تیار کی اور آپ کے سامنے رکھ دی، اتنے میں ایک سائل آیا۔ آپ نے وہ مچھلی اسے دے دی۔ الطبقات الکبری لابن سعد 108/4 واسنادہ صحیح

میمون بن مہران سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی کو لوگوں نے برا بھلا کہا کہ تم ان کی خدمت صحیح کیوں نہیں کرتی؟ وہ کہنے لگی: میں کیا کروں، ان کے لیے جو کھانا تیار کیا جاتا ہے وہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کی بیوی نے ان مسکینوں کو جو راستہ میں بیٹھے تھے بلا بھیجا اور انہیں کھانا کھلا کر کہا: آج آپ لوگ اُن کے راستہ میں نے بیٹھیں، اور دوسرے مسکینوں کے گھر پہلے ہی کھانا بھیج دیا اور کہہ دیا کہ: تمہں اگر ابن عمر بلائیں تو نہ آنا۔ اتنے میں ابن عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور مسکینوں کو بلایا تو وہ نہ آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے فرمایا: کیا تمہارا یہ ارادہ ہے کہ میں آج رات کا کھانا نہ کھاوں؟ اس کے بعد آپ نے اس رات کھانا نہ کھایا۔ ابن سعد 166/4 واسناہ صحیح

اچھے کے ساتھ اچھے رہو

اچھے کے ساتھ اچھے رہو لیکن برے کے لیے برے مت بنوکیونکے تم پانی سے خون صاف کرسکتے ہوپر خون سے خون صاف نہیں کر سکتے

خلفاء راشدین کیسے منتخب ہوئے

ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ اسلامی نظام نافذ ہونا چاہئے۔ جی بالکل ہونا چاہئے، میں بھی اس کے حق میں ہوں لیکن جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ اسلامی نظام کیسے نافذ ہو گا؟ تو جوابمیں خلافت راشدہ کا حوالہ ملتا ہے۔ بے شک خلفاء راشدین عظیم لوگ تھے اور ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ اسی لیے اس تحریر میں خلفاء راشدین منتخب ہونے کا مختصر جائزہ پیش کر رہا ہوں۔ باقی فیصلہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ خلفاء راشدین مقرر ہونے کے طریقوں میں کونسی بات، کونسی چیز مشترک تھی؟ خلفاء راشدین اور تب کے دیگر مسلمان، خلیفہ منتخب کرنے میں کس چیز کو خاص طور پر مدِنظر رکھتے تھے؟ خلفاء راشدین مقرر ہونے کے طریقوں میں سے آج کے دور میں خلیفہ مقرر کرنے کے لئے کونسا طریقہ اپنایا جا سکتا ہے یا کونسا طریقہ مناسب رہے گا؟ خود تحقیق کریں اور جانیں کہ خلیفہ مقرر ہونے کے طریقے میں وہ کونسا بنیادی اصول تھا، جس کو اس وقت کے مسلمان سب سے زیادہ ترجیح دیتے تھے اور وہ کونسی بات تھی جو خلافت کو بادشاہت سے ممتاز کرتی تھی؟ سب سے اہم بات کہ اسلام نے خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار کس کو دیا ہے؟
اس تحریر کو دو طرح پیش کر رہا ہوں۔ ایک یہ: جو کہ آپ پڑھ رہے ہیں۔ یہ تفصیلی (مگر مختصر) جائزہ بمعہ حوالہ جات ہے۔ ویسے تو یہ حصہ بھی زیادہ لمبا نہیں۔ لیکن پھر بھی اگر کسی کے پاس وقت بہت کم ہے تو اس کے لئے علیحدہ خلاصہ لکھ دیا ہے۔ ایک بات واضح کر دوں: ہو سکتا ہے کہ میری تحقیق میں کوئی کمی رہ گئی ہو، اس لئے اگر کہیں آپ کو لگے کہ میں غلطی کر رہا ہوں تو اس کی نشاندہی ضرور کیجئے۔ اس کے علاوہ جو باتیں لکھ رہا ہوں وہ سب جن کتب سے مجھے معلوم ہوئی تھیں، ساتھ میں ان کتب کا حوالہ بھی لکھ رہا ہوں۔ اب اگر تاریخی یا دیگر باتوں میں کہیں کوئی غلطی ہے تو اس کی ساری ذمہ داری ان کتب پر ہے جن ذریعے ہم تک یہ باتیں پہنچی۔
اسلام (قرآن و حدیث) میں ہمیں امیر (خلیفہ) کے اوصاف، اس کے کردار، مسلمانوں کو امیر کی اطاعت اور نافرمانی کرنے[1] وغیرہ کے بارے میں تو ملتا ہے لیکن امیر مقرر کرنے کا ”طریقہ کار“ نہیں ملتا۔ میرے حساب سے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے بتا دیا ہے کہ فلاں فلاں خصوصیات کے حامل کو اپنا امیر مقرر کرو جبکہ امیر مقرر کرنے کا طریقہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے یعنی مسلمان حالات کے مطابق، باہمی مشاورت سے اپنا امیر مقرر کر لیں۔ مسلمانوں کا باہمی مشاورت سے کام کاج کرنے کا ذکر قرآن میں ملتا ہے۔[2]
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے اپنی زندگی میں اپنا کوئی جانشین یا اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا[3]۔ البتہ مختلف واقعات جیسے رسول اللہﷺ کی بیماری کے دنوں میں نماز کی امامت کے لئے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو حکم دینا[4]۔اس کے علاوہ 9 ہجری میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنے قائم مقام کی حیثیت سے امیر الحج بنا کر بھیجنا[5] اور اسی طرح چند ایک دیگر واقعات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی نظر میں آپﷺ کی غیر موجودگی میں مسلمانوں کے امیر حضرت ابوبکرصدیقؓ کو ہونا چاہئے۔ بعض جگہ یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ رسول اللہﷺ کو ڈر تھا کہ میرے بعد کئی لوگ خلافت کی آرزو کریں گے اور کہنے والے یہ بھی کہیں گے کہ میں خلافت کا زیادہ حق دار ہوں، اس لئے آپﷺ ابوبکرصدیقؓ کو اپنا جانشین بنانا تو چاہتے تھے لیکن مقرر نہیں کیا تھا[6]۔ حضورﷺ کو خلافت کے متعلق لوگوں کی آرزو اور لوگوں کا اپنے آپ کو زیادہ حق دار سمجھنے کا ڈر ہونے کے باوجود بھی جانشین یا خلیفہ نامزد نہ کرنا، کچھ اور واضح کرتا ہے یا نہیں لیکن میرے خیال میں یہ صاف واضح کرتا ہے کہ آپﷺ نے خلیفہ بنانے کا اختیار آنے والے وقت اور مسلمانوں پر چھوڑ دیا تھا۔ اگر آپﷺ خلیفہ مقرر کر جاتے تو پھر وہ حدیث ہو جاتی اور مسلمانوں کا خلیفہ بنانے کا وہی طریقہ ہوتا یعنی پچھلا خلیفہ اگلا خلیفہ مقرر کر جائے جبکہ آپﷺ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا۔ آپ خود سوچیں کہ اگر خلیفہ مقرر کرنے کا اختیار مسلمانوں کے پاس نہ ہوتا یا اس کا کوئی دوسرا خاص طریقہ ہوتا تو کم از کم خلفاء راشدین ضرور اس خاص طریقے سے خلیفہ مقرر ہوتے، جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ خلفاء راشدین مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے مقرر ہوئے۔ آسان الفاظ میں یہ کہ خلیفہ مقرر کرنے کا اختیار اور طریقہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا، تاکہ مسلمان اپنے حالات کے مطابق باہمی مشاورت سے خلیفہ مقرر کر لیں۔
حضورﷺ کی وفات کے بعد صحابہؓ آپﷺ کی تجہیزوتکفین میں مصروف تھے تو انصار کے کچھ لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں امیر منتخب کرنے کے لئے جمع ہو گئے[7]۔ جب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ بھی ادھر پہنچ گئے۔ امیر مقرر کرنے پر مشاورت شروع ہوئی اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ انصار میں سے کسی نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک قریش میں سے۔ حالات کچھ ایسے بن گئے کہ اچانک حضرت عمرفاروقؓ نے خلیفہ کے لئے حضرت ابوبکرصدیقؓ کا نام تجویز کیا اور ان کی بیعت کر لی[8]۔ اس کے بعد مدینے کے لوگوں(جو درحقیقت اُس وقت پورے ملک میں عملاً نمائندہ حیثیت رکھتے تھے[9])کی اکثریت نے اپنی خوشی سے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اگرچہ مدتوں کے تجربے سے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ خلافت کا بارِگراں حضرت عمرؓ کے سوا اور کسی سے اٹھ نہیں سکتا۔ لہٰذا آپؓ نے حضرت عمرؓ کو نامزد کر دینے کا عزم کر لیا۔ اس نامزدگی سے متعلق آپ اکابر صحابہؓ کی رائے کا بھی اندازہ کرنا چاہتے تھے[10] تو اس سلسلے میں آپؓ نے کئی صحابہؓ سے مشورہ کیا اور پھر لوگوں کو جمع کر کے کہا ”کیا تم اُس شخص پر راضی ہو جسے میں اپنا جانشین بنا رہا ہوں؟ خدا کی قسم میں نے رائے قائم کرنے کے لیے اپنے ذہن پر زور ڈالنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور اپنے کسی رشتہ دار کو نہیں بلکہ عمر بن الخطاب کو جانشین مقرر کیا ہے، لہٰذا تم ان کی سنو اور اطاعت کرو۔“ اس پر لوگوں نے کہا ”ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے“[11]۔ یوں اس طرح صحابہ اکرامؓ سے مشورہ کرنے اور دیگر لوگوں کا بھی اس پر متفق ہو جانے سے حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ بنے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دورِخلافت کے آخری سال حج کے دنوں میں ایک شخص نے کہا کہ اگر عمر فاروقؓ کا انتقال ہوا تو میں فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا، کیونکہ ابوبکرصدیقؓ کی بیعت بھی تو اچانک ہی ہوئی تھی اور وہ کامیاب ہو گئی[8]۔ دراصل اچانک بیعت اور کامیاب ہونے سے اس شخص کی مراد وہ پرانا واقعہ تھا جس میں سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت عمرؓ نے اچانک حضرت ابوبکرؓ کا نام تجویز کیا تھا اور ہاتھ بڑھا کر فوراً بیعت کر لی تھی اور پھر وہ بیعت کامیاب ہوئی یعنی دیگر مسلمان بھی اس بیعت پر راضی ہو گئے۔ اس شخص کی بات کے جواب میں حضرت عمرؓ نے مسجد نبوی میں خلافت کے حوالے سے تاریخ ساز خطبہ دیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کوئی کہتا ہے ”اگر عمر فاروقؓ مرجائیں تو میں فلاں کی بیعت کرلوں گا“۔ تمہیں کوئی شخص یہ کہہ کر دھوکہ نہ دے کہ ابوبکرؓ کی بیعت ہنگامی حالات میں ہوئی اور پھر کامیاب ہوگئی، سن لو کہ وہ ایسی ہی تھی لیکن اللہ نے اس (طرح کی) بیعت کے شر سے (امت کو) محفوظ رکھا۔ پھر تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس میں ابوبکرؓ جیسی فضیلت ہو؟ جس سے ملنے کے لیے لوگ سفر کرتے ہوں۔۔۔ اس کے علاوہ اس خطبہ میں حضرت عمرؓ نے کہا کہ اب جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے[8]۔ میرے خیال میں اس خطبے میں حضرت عمرؓ نے واضح کیا کہ بے شک حضرت ابوبکرؓ کی بیعت ہنگامی حالات میں اچانک ہوئی تھی اور کامیاب بھی ہوئی لیکن اس کو آئندہ کے لئے مثال نہیں بنایا جا سکتا۔ ویسے بھی حضرت ابوبکرؓ جیسی بلندوبالا اور مقبول شخصیت کا آدمی اور کون ہے؟ اگر کوئی حضرت ابوبکرؓ کی اچانک بیعت ہونے والے پہلو کو ثبوت کے طور پر پیش کر کے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر بیعت کرنا چاہے تو اس کے دھوکے میں نہ آنا بلکہ مسلمانوں کے مشورے سے بیعت کرنا۔
جب حضرت عمرؓ کو زخمی کیا گیا تو لوگوں نے آپؓ کو خلیفہ مقرر کرنے کا کہا تو آپؓ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور اگر میں خلیفہ مقرر کروں تو مجھ سے بہتر و افضل حضرت ابوبکرؓ مقرر کر چکے ہیں اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر نہ کروں تو مجھ سے بہتروافضل رسول اللہﷺ نے بھی کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا[3]۔ عبداللہ بن عمرؓ نے کہتے ہیں کہ جب آپؓ نے رسول اللہﷺ کا ذکر کیا تو میں جان گیا کہ آپؓ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں فرمائیں گے۔
جب حضرت عمرؓ آخری وصیتیں فرما رہے تھے تب لوگوں نے عرض کیا امیرالمومنین کسی کو خلیفہ بنا دیں حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ کوئی خلافت کا مستحق نہیں ہے جن سے رسول اللہﷺ انتقال کے وقت راضی تھے پھر آپ نے حضرت علیؓ، عثمانؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، سعدؓ، عبدالرحمنؓ بن عوف کا نام لیا اور فرمایا کہ عبد اللہ بن عمرؓ تمہارے پاس حاضر رہا کریں گے مگر خلافت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ آپ نے یہ جملہ ابن عمرؓ کی تسلی کے لیے کہا۔ پھر حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد وہ لوگ جو حضرت عمرؓ کی نظر میں خلافت کے مستحق تھے جمع ہوئے۔ ان چھ صحابہ نے اتفاق رائے سے اپنے میں سے تین لوگ منتخب کر لیے۔ پھر ان تینوں نے اتفاق رائے سے خلیفہ تجویز کرنے کا اختیار عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو دے دیا۔ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے بہت سوچ بچار، عام لوگوں کا رحجان کس طرف ہے اور کئی صحابہ اکرامؓ سے مشورہ کرنے کے بعد عثمان غنیؓ کو خلیفہ منتخب کیا[12]۔ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ مقرر کرنے کے لئے عبدالرحمٰنؓ بن عوف اکابر سے بھی مشورہ کرتے اور ان کے پیروکاروں سے بھی۔ اجتماعاً بھی اور متفرق طور پر بھی۔ اکیلے اکیلے سے بھی اور دو دو سے بھی۔ خفیہ بھی اور اعلانیہ بھی، حتی کہ پردہ نشین عورتوں سے بھی مشورہ کیا۔ مدرسے کے طالب علموں سے بھی اور مدینہ کی طرف آنے والے سواروں سے بھی(حج سے واپس گزرتے ہوئے قافلوں سے بھی دریافت کیا[13])، بدووں سے بھی جنہیں وہ مناسب سمجھتے۔ تین دن اور تین راتیں یہ مشورہ جاری رہا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ ان تین دن اور تین راتوں میں بہت کم سوئے۔ وہ اکثر نماز، دعا، استخارہ اور ان لوگوں سے مشورہ میں وقت گزارتے تھے جن کو وہ مشورہ کا اہل سمجھتے[14]۔ آخر اس استصوابِ عام سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اکثر لوگ حضرت عثمانؓ کے حق میں ہیں[13]۔
جہاں تک میری معلومات ہے اس کے مطابق حضرت عثمانؓ نے بھی اپنا کوئی جانشین مقرر نہیں کیا تھا۔ لیکن ایک جگہ پر یہ پڑھنے کو ملا کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے بعد خلافت عبدالرحمٰنؓ بن عوف کے لئے لکھ کر اپنے منشی کے پاس وہ کاغذ رکھوا دیا تھا۔ مگر حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف ان کی زندگی میں ہی 32ھ میں انتقال کر گئے[15]۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت 35ھ میں ہوئی جبکہ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف تین سال قبل 32ھ میں انتقال کر گئے تو پھر اگر حضرت عثمانؓ اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتے تھے تو انہوں نے ان تین سالوں میں کسی دوسرے کو جانشین مقرر کیوں نہ کیا؟ خیر اس کے علاوہ صحیح بخاری میں ذکر ملتا ہے کہ جب حضرت عثمانؓ کو اتنی نکسیر پھوٹی کہ آپؓ کو حج سے رکنا پڑا اور وصیت بھی کر دی تھی کہ ایک قریشی نے آپ کے پاس جا کر عرض کیا کہ کسی کو خلیفہ مقرر کر دیجئے۔ حضرت عثمانؓ نے پوچھا کیا لوگ خلیفہ مقرر کرنے کو کہتے ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا کس کو؟ وہ خاموش رہا پھر ایک اور شخص آپؓ کے پاس آیا اس نے کہا کسی کو خلیفہ بنائیے۔ آپؓ نے اس سے بھی پوچھا کیا لوگ خلیفہ مقرر کرنے کو کہتے ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ آپؓ نے اس سے بھی فرمایا کس کو؟ شاید وہ بھی تھوڑی دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا شاید لوگوں کی رائے ہے زبیر کو خلیفہ بنایا جائے تو حضرت عثمانؓ نے فرمایا! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میرے علم میں زبیر سب سے بہتر ہیں یقیناً وہ سرور عالمﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اس سے اگلی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے تین بار یہ بات دہرائی کہ”تم خود جانتے ہو کہ زبیرؓ بن عوام تم سب میں سے بہتر ہیں“[16]۔ ان واقعات سے یہ تو ثابت ہوتا کہ حضرت عثمانؓ سے جب خلیفہ بنانے کا کہا گیا تو انہوں نے حضرت زبیرؓ بن عوام کو پسند فرمایا اور سب سے بہتر کہا۔ میرا خیال ہے کہ یہ حضرت زبیرؓ کے متعلق حضرت عثمانؓ کی رائے تھی اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عثمانؓ نے حضرت زبیرؓ کو اپنا جانشین یا خلیفہ مقرر کیا ہو۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت باغی اور شورش پسند عنصر مدینہ پر چھایا ہوا تھا۔ انہوں نے شہر کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ پورے شہر کا نظم و نسق باغیوں میں سے ہی ایک شخص غافقی بن حرب کے ہاتھ میں تھا۔ یہی شخص 5 دن تک امامت کے فرائض بھی انجام دیتا رہا۔ شرپسندوں کا یہ گروہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دینے تک تو متفق تھا لیکن آئندہ خلیفہ بنانے میں ان میں اختلاف تھا۔ مصری حضرت علیؓ کو، کوفی حضرت زبیرؓ کو اور بصری حضرت طلحہؓ کو خلیفہ بنانے چاہتے تھے۔ لیکن ان تینوں حضرات نے انکار کر دیا۔ پھر یہ لوگ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس بھی گئے لیکن ان دونوں حضرات نے بھی صاف انکار کر دیا۔ اس صورت حال سے ان شورشیوں کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر ہم اس معاملہ کو یونہی چھوڑ کر واپس چلے گئے تو ہماری خیر نہیں (خود عبداللہ بن سبا مصر سے بھیس بدل کر مدینہ آیا اور اپنے چیلوں کو تاکید کی کہ خلیفہ کے تقرر کے بغیر اپنے علاقوں کو ہرگز واپس نہ جائیں)[17]۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت علیؓ سے خلافت سنبھالنے کو کہا گیا تو آپ نے فرمایا ”میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہونی چاہیئے“۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپؓ نے اس کا یوں جواب دیا ”یہ اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے، جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہو گا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملہ پر غور کریں گے“[18]۔
حضرت علیؓ کے خلیفہ مقرر ہونے کے بارے میں ”خلافت و جمہوریت“ کے صفحہ 75 اور 76 پر مولانا عبدالرحمٰن کیلانی صاحب ”البدایہ“ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شورشی یہ سوچ کر (خلیفہ بنائے بغیر واپس چلے گئے تو ہماری خیر نہیں) حضرت علیؓ کے پاس آئے اور اصرار کیا اور اس گروہ کے سرخیل اشترنخعی نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کر لی۔ اس کے بعد دیگر افراد نے بھی بیعت کی۔ لیکن حضرت علیؓ کی خواہش کے مطابق اہل شوریٰ اور اہل بدر کے جمع ہونے کا موقع میسر نہ آ سکا اور اس کے بغیر ہی آپ خلیفہ چن لیے گئے۔ ”خلافت و ملوکیت“ کے صفحہ 83 تا 86 پر ابوالاعلی مودودی صاحب جہاں دیگر خلفاء کے مقرر ہونے کا طریقہ بیان کرتے ہیں وہاں پر حضرت علیؓ کے خلیفہ مقرر ہونے کا طریقہ واضح الفاظ میں نہیں لکھتے جبکہ صفحہ 121 اور 122 پر لکھتے ہیں کہ تمام معتبر روایتوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے اصحاب اور دوسرے اہلِ مدینہ ان (حضرت علیؓ) کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ”یہ نظام کسی امیر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، لوگوں کے لیے ایک امام کا وجود ناگزیر ہے، اور آج آپ کے سوا ہم کوئی ایسا شخص نہیں پاتے جو اس منصب کے لئے آپ سے زیادہ مستحق ہو، نہ سابق خدمات کے اعتبار سے، اور نہ رسول اللہﷺ کے ساتھ قُرب کے اعتبار سے۔“ انہوں نے انکار کیا اور لوگ اصرار کرتے رہے۔ آخر کار انہوں نے کہا ”میری بیعت گھر بیٹھے خفیہ طریقہ سے نہیں ہو سکتی، عام مسلمانوں کی رضا کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔“ پھر مسجد نبویؐ میں اجتماع عام ہوا اور تمام مہاجرین اور انصار نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ صحابہؓ میں سے 17 یا 20 ایسے بزرگ تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی تھی۔
حضرت علیؓ کی وفات کے قریب لوگوں نے پوچھا کہ اے امیر المومنین! اگر آپ فوت ہو جائیں تو ہم آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں؟ آپؓ نے جواب دیا ”میں نہ تم کو اس کا حکم دیتا ہوں، نہ منع کرتا ہوں۔ تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو“۔ حضرت علیؓ کی وفات کے قریب ہی لوگوں نے کہا کہ آپؓ اپنا ولی عہد مقرر کر جائیں۔ آپ نے جواب میں فرمایا ”میں مسلمانوں کو اُسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہﷺ نے چھوڑا تھا“[19]۔
قارئین! فیصلہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ سوچیں اور تحقیق کریں، تحریر کے شروع میں لکھے گئے سوالات کے جوابات ڈھونڈیں۔ خاص طور پر ان نکات پر غور کریں کہ اسلام (قرآن و حدیث) میں خلیفہ مقرر کرنے کا طریقہ نہ ہونا، حضورﷺ کا اپنا جانشین مقرر نہ کرنا، حضورﷺ کے بعد خلیفہ منتخب کرنے کے لئے سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کا مشاورت کرنا، حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کرنے کے لئے حضرت ابو بکرؓ کا اکابر صحابہؓ سے مشورہ کرنا اور پھر دیگر مسلمانوں کا اس سے متفق ہونا، حضرت عمرؓ کا خطبے میں یہ فرمانا کہ ”جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے“، مزید حضرت عمرؓ کا کسی کو خلیفہ نامزد نہ کرنا، حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد جب عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو خلیفہ نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا تو ان کی اس معاملے میں بہت سوچ بیچار اور خاص طور یہ جاننا کہ عام لوگوں کی اکثریت کا رحجان کس شخصیت کی طرف ہے، حضرت علیؓ کا یہ فرمانا ”میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہونی چاہیئے“۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپؓ کا یوں فرمانا ”یہ اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے، جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہو گا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملہ پر غور کریں گے“، مزید آپؓ کا ولی عہد مقرر کرنے والی بات پر یہ فرمانا ”میں مسلمانوں کو اُسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہﷺ نے چھوڑا تھا“
Powered by Blogger.

Like Us

About

Featured Post

ڈاکٹر اور مریض فنی

‏مریض : آپ نے جو دواء پرچی کے پیچھے لکھی تھی وہ تو پورے شہر میں کہیں سے نہیں ملی ؟ فیصل آبادی ڈاکٹر : لو دسو ، اوئے ما ما اوہ تے میں پین ...